استحسان کا باطنی اثر یہ ہے کہ اس میں سجدۂ تلاوت کو سجدہ ٔنماز پر قیاس کرکے یوںکہا گیا ہے کہ جس طرح نماز کا سجدہ رکوع سے ادا نہیں ہوتاہے،سجدۂ تلاوت بھی رکوع سے ادا نہ ہوگا ،اسی طرح نماز کے باہر کے رکوع سے سجدۂ تلاوت ادا نہیں ہوتاہے، تو نماز کے رکوع سے بھی ادا نہ ہوگا،__ یہ استحسان کا باطنی اثر ہے مگر یہ ضعیف اور فاسد ہے کیونکہ نماز کا سجدہ قربتِ مقصودہ ہے،اور سجدۂ تلاوت قربت غیر مقصودہ ہے،تو قیاس صحیح نہیں ہے کہ نماز کا سجدہ جیسے رکوع سے ادا نہیں ہوتا ، سجدۂ تلاوت بھی ادا نہ ہوگا__ اسی طرح نماز کا رکوع عبادت ہے اور نماز کے باہر کارکوع عبادت نہیں ہے،اور سجدۂ تلاوت جس رکوع سے ادا ہو گا اس کا عبادت ہونا شرط ہے پس یہ قیاس بھی درست نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ قیاس کا ظاہری اثر (بناء علی القیاس) اگر چہ ضعیف ہے__ مگر اس کا باطنی اثر (یعنی تعظیم وتواضع کا مقصود ہونا اور اس کا رکوع سے حاصل ہونا)ـقوی اور مضبوط ہے،__اور استحسان کا ظاہری اثر (حقیقت پر عمل )اگر چہ قوی ہے__ مگراس کا باطنی اثر (قربتِ غیر مقصودہ مثل سجدۂ تلاوت کو قربتِ مقصودہ مثل سجدۃصلوۃ پر قیاس )ضعیف اور فاسد ہے پس قیاس پر عمل کرنا جس کا مخفی اور باطنی اثر قوی ہے اگر چہ ظاہری اثر میں فساد ہے یہ زیادہ اولی ہے اس استحسان پر عمل کرنے سے جس کا ظاہری اثرقوی ہے، اور باطنی اثر ضعیف اور فاسد ہے ، لہٰذا یہاں قیاس کو استحسان پرترجیح دی ۔
مصنفؒ کہتے ہیں کہ یہ قسم جو ابھی بیان ہوئی یعنی قیاس کو استحسان پرمقدم کرنا بہ نسبت پہلی قسم (استحسان کو قیاس پر مقدم کرنے )کے قلیل الوجودہیں ،اور قسم اول کی مثالیں انگنت ہیں۔
ثُمَّ الْمُسْتَحْسَنُ بِالْقِیَاسِ الْخَفِیِّ یَصِحُّ تَعْدِیَتُہٗ بِخِلَافِ الْمُسْتَحْسَنِ بِالْاَثَرِ اَوِالْاِجْمَاعِ اَوْ الضَّرُوْرَۃِ کَا لسَّلَمِ وَالْاِسْتِصْنَاعِ وَتَطْھِیْرِالْحِیَاضِ وَالْاٰبَارِ وَالْاَوَانِیْ اَلَا تَریٰ اَنَّ الْاِخْتَلَافَ فِی الثَمَنِ قَبْلَ قَبْضِ الْمَبِیْعِ لَا یُوْجِبُ یَمِیْنَ