جس مسافر غنی نے ضرورت کے وقت دورانِ سفر زکوٰۃ وصول کی تھی، اگر وطن لوٹنے پر اس رقم کا کچھ حصہ بچ جائے تو وہ اسے اپنی ضروریات میں بلاتکلف استعمال کرسکتا ہے، اس زائد رقم کا صدقہ کرنا اس پر لازم نہیں ہے۔ ولا یلزمہ التصرف بما فضل فی یدہ عند قدرتہ علی مالہ۔ (شامی زکریا ۳؍۲۹۰، ہندیۃ ۱؍۱۸۸، طحطاوی جدید ۷۲۰)
اگر مالک نے زکوٰۃ کی رقم الگ کرکے رکھی تھی اور ابھی فقیر کے قبضہ میں نہیں دی تھی تو وہ اس رقم کو ادل بدل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، حتی کہ اگر چاہے تو یہ رقم دوسری ضروریات میں خرچ کرکے اس کی جگہ دوسری رقم رکھ دے، یا دوسری رقم سے زکوٰۃ ادا کرکے اس رقم سے وصول کرلے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مستفاد: لا یشترط الدفع من عین مال الزکوٰۃ ولذا لو امر غیرہ بالدفع عنہ جاز۔ (شامی زکریا ۳؍۱۸۹)
مدرسہ کا سفیر، یا مالک کا وکیل امین ہوتا ہے، اس لئے اصلی بات یہ ہے کہ زکوٰۃ میں حاصل کردہ اصل رقم بلاکسی تبدیلی کے مدرسہ یا مستحق تک پہنچائے؛ لیکن اگر ضرورت ہو تو نوٹ بدلنے اور تڑانے کی بھی گنجائش ہے؛ کیوںکہ زکوٰۃ میں روپئے متعین نہیں ہوتے؛ بلکہ اصل میں مالیت متعین ہوتی ہے، اس میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ مستفاد: لا یشترط الدفع من عین مال الزکوٰۃ ولذا لو امر غیرہ بالدفع عنہ جاز۔ (شامی زکریا ۳؍۱۸۹)
زکوٰۃ کی ادائیگی میں مالِ زکوٰۃ کی وہ قیمت معتبر ہوگی جہاں مال ہے۔ ویقوم فی البلد