(الجواب)…بینک سے وصول کر کے اس رقم کو قومی اور رفاہ عام کے کاموں میں بہ نیت رفع وبال خرچ کر دینا چاہئے ۔ محمد کفایت اﷲ کان اﷲ لہ‘ مدرسہ امینہ دہلی (الجمعیۃ نمبر ۲۹ ۔۴رجب ۱۳۵۲ھ مطاب ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۳ء)
ماہنامہ ’’ الرشاد‘‘ میں فقہ اسلامی سمینار ’’کے چند اہم فیصلے ‘‘اس عنوان کے تحت ذیلی عنوان’’ سود سے متعلق مسائل‘‘ میں یہ تجویز بھی ہے ۔
بینک انٹرسٹ کے سود لینے پر شرکائے سیمنا کا اتفاق ہے، انٹرسٹ کی رقم بینک سے نکالی جائے یا چھوڑی جائے ؟ نکال لی جائے تو کس مصرف میں خرچ کی جائے؟ اس سلسلہ میں درج ذیل امور طے پائے ۔
(۱)بینکو ں سے ملنے والی سود کی رقم کو بینکوں میں نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے نکال کر مندرجہ ذیل مصارف میں خرچ کیا جانا چاہئے۔
(۲)بینک کے سود کی رقم کو بلا نیت ثواب فقراء و مساکین پر خرچ کر دیا جائے، اس پر تمام ارکان کا اتفاق ہے
(۳)سود کی رقم کو مساجد اور اس کے متعلقات پر خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔
(۴)اکثر شرکاء سمینار کی یہ رائے ہے کہ اس رقم کو صدقات واجبہ کے مصارف کے علاوہ رفاہ عام کے کاموں پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے ، بعض حضرات کی رائے میں اس کے مصرف کو فقراء و مساکین تک محدود رکھنا چاہئے۔(ماہنامہ جامعۃ ’’ الرشاد‘‘ جنوری ۱۹۹۰ء مطابق جمادی الثانی ۱۴۱۰ھ، جلد نمبر ۱۸، شمارہ نمبر ۲۱)فقط واﷲ اعلم بالصواب۔
سودی رقم مسجد کے بیت الخلاء میں استعمال کرنا کب درست ہے؟:
(سوال ۳۲۲)ہمارے پاس بینک کا سود ہے ، یہ سودی رقم مسجد کے بیت الخلاء پیشاب خانہ میں استعمال کرناکیسا ہے ؟ بینواتوجروا۔
(الجواب)اگر مسجد کی رقم بینک میں رکھی ہو اور اس پر سود ملا ہو تو چونکہ مسجد کی رقم کا حساب حکومت کو دکھانا پڑتا ہے، حساب دینے کی آسانی کے لئے حاصل شدہ سود کو مسجد کے بیت الخلاء پیشاب خانے میں استعمال کر لیا جائے تو استعمال کرنے کی گنجائش ہے اور اگر مسجد کی رقم کا سود نہ ہو بلکہ دوسروں کی رقم کا سود ہو تو اس صورت میں بلا مجبوری استعمال نہ کرنا جائے ثواب کی نیت کے بغیر غرباء کو دے دیا جائے ، فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔
نوٹ:
فتاویٰ رحیمیہ ص ۱۹۲ ج ۲(جدیدترتیب کے مطابق اسی باب میں سودی رقم رفاہ عام میں لگا سکتے ہیں ؟ کے عنوان سے ملاحظہ کیا جائے ۔ازمرتب)والے جواب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مطلقاً سودی رقم مسجد کے بیت الخلاء و پیشاب خانہ میں استعمال کی جاسکتی ہے ، وہ سوال وجواب ملاحظہ ہوں ۔